یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مہینہ ہے،اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کوبے پناہ رحمتوں سے نوازتااور اس کی امید و توقع کے برخلاف بندے پر اپنی عنایات و توجہات مبذول فرماتاہے،فی الحقیقت سال کے بارہوں مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے، جس میں انسانی نفس کی تطہیر اور روح کے تزکیے کا سامان ہوتاہے،گناہوں ،روحانی آلایشوں اور اخلاقی کوتاہیوں سے بندہ توبہ کرتاہے اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کرمعافی کا طلب گار ہوتاہے؛چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو بخش دیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اعمالِ خیر کی انجام دہی کی توفیق ملتی ہے،رمضان میں جہاں بندے کومختلف قسم کی نیکیاں کرنے کا موقع ملتاہے،وہیں ان نیکیوں کے اجروثواب میں بھی بے حساب اضافہ کردیاجاتاہے،بھلااس سے زیادہ اللہ کی عنایت و رحمت کیاہوگی کہ نوافل کا ثواب فرائض کے برابر کردیاجائے اور ایک فرض کاثواب ستر فرضوں کے برابرکردیاجائے،تراویح کی نماز گزشتہ تمام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے،اسی مہینے میں اعتکاف ہے،جس کا ثواب حج اور عمرے کے برابر قراردیاگیاہے،اسی مہینے میں ایک رات ایسی ہے کہ اگر اس میں عبادت کرنے کی توفیق مل جائے،توبندے کی چاندی ہوجائے،اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار رات کی عبادتوں کے بقدر ہے ،اسی طرح اس مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص انسیت اور تعلق ہے اور اس کی تاریخی وجوہ بھی ہیں کہ قرآن کے نزول کا آغاز اسی ماہ سے ہواتھا اوراس لیے بھی کہ ہمارے نبیﷺ اس مہینے میں زیادہ اہتمام سے تلاوتِ قرآن کریم فرمایاکرتے تھے ،آپؐ دور فرمایاکرتے اور اس میں جبریلِ امینؑ آپ کے شریک ہوتے تھے۔ اور اس مہینے کی اصل خصوصیت ،جس سے اس ماہ کی شناخت ہے اورجواس کا امتیازواختصاص ہے ،وہ ہے روزہ،روزہ کی تاریخی و شرعی حیثیت پر ہم گفتگونہیں کرناچاہتے کہ پڑھے لکھے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اوریوں بھی آج کل اخبارات میں اس حوالے سے کالموں کی بھرمارہے،بس عرض یہ کرناہے کہ روزہ مذکورہ اعمال میں نمایاں ترین اہمیت و حیثیت کاحامل ہے اور اس کی وجہ وہ حدیثِ قدسی ہے،جس میں اللہ کے نبیﷺ اللہ تعالیٰ کاقول نقل کرتے ہیں کہ روزہ میرے لیے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا،یعنی روزہ کی عظمت اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ دیگر عبادتوں کے اجروثواب کے برعکس اللہ تعالیٰ خود ہی اس عبادت کا ثواب اور بدلہ بندے کوعنایت فرمائے گا،اس کے علاوہ حدیثوں میں روزہ داروں کے لیے بہت ساری فضیلتیں واردہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے روزہ داروں کے لیے بے شمار نعمتوں کا وعدہ کیاگیاہے۔اسلام میں ہرعبادت اپنے اندر بے شمار حکم و مصالح رکھتی ہے،البتہ بعض عبادتوں کا پلڑا اس حوالے سے ذرابھاری ہے،انہی میں سے روزہ بھی ہے،روزے میں انسان بہت سی لغزشیں چاہ کر بھی نہیں کر سکتا اور اسے ہر حال میں مخلص ہونا پڑتا ہے، روزے کی وجہ سے انسان کئی جسمانی و روحانی برائیوں سے بچ جاتا ہے،روزے کی وجہ سے انسان غیر محسوس طورپر اپنے رب سے قریب ،قریب تر ہوتا جاتا ہے،روزے کے ذریعے سے ان لوگوں کوجوآسایش وفراغت کی زندگی گزارتے ہیں،بھوک کی شدت اور پیاس کی سختی کا احساس ہوتاہے اور ان کے دلوں میں غریبوں،مسکینوں اور محتاجوں کے تئیں جذبۂ ہمدردی و رحم دلی پیداہوتاہے؛چنانچہ یہ لوگ اپنے مال و اسباب میں سے خرچ کرتے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں؛یہ اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی نیکیاں ہیں جوروزے کی وجہ سے انجام پاتی ہیں،سوروزہ کے تعلق سے شرعی نصوص میں جوفضیلتیں اور امتیازات مذکورہوئے ہیں،وہ بالکل منطقی اور مبنی بر حقیقت ہیں۔
ان فضیلتوں کا تقاضا تویہ ہے کہ ہم جون کی تپتی ہوئی گرمی میں بھی محض اخلاص اور اللہ کا قرب و رحمت پانے کے لیے رمضان المبارک کے روزے رکھیں اور اس مہینے کی خیرات و برکات کے حصول کے لیے جدوجہدکریں،نمازوں کے اہتمام کے ساتھ تراویح و نوافل کی بھی پابندی کریں،تلاوتِ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ مسکینوں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں اور یہ کوشش کریں کہ اپنی حد تک جس قدر بھی ہوسکے ،اللہ کاتقرب حاصل کرلیں۔جب رمضان کامہینہ آنے والاہوتااور ایک دودن باقی ہوتے تونبی اکرمﷺصحابۂ کرام کو جمع فرماتے اور ان کے سامنے ایک اجتماعی خطاب فرماتے تھے،اس خطاب میں مضان المبارک کی خصوصیات اور عظمتوں کوبیان کرتے اور اس مہینے میں نازل ہونے والی اللہ کی خاص رحمتو ں کاذکرکرنے کے بعد صحابہؓکوزیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی طرف رغبت دلاتے،انھیں رمضان کے استقبال کے لیے پرجوش کرتے،ان کے دلوں میں جذبۂ اطاعت و عبادت تو یوں بھی موجزن ہوتا تھا؛لیکن رمضان کے پیشِ نظرآپؐ اسے مزید برانگیختہ کردیتے اور پھر وہ سب آنے والے مہینے میں اپنے رب کو راضی کرنے اور اس کی نعمتوں سے خوب خوب مستفیض ہونے کے لیے کمربستہ ہوجایاکرتے تھے۔پچھلے وقتوں میں ہماری دنیا اور ہمارے معاشرے میں بھی اس طرح کے کچھ نقوش و خطوط نظرآتے تھے،لوگ رمضان کاشایانِ شان استقبال کرنے کے لیے پرجوش رہتے تھے اور پورے مہینے پابندی سے روزہ رکھنے کے ساتھ دیگر عبادتوں میں بھی بڑی چستی اور لگن کا مظاہرہ کرتے تھے۔
لیکن ہم لوگ جس عہد میں جی رہے ہیں،یہ صارفیت زدہ عہدہے،یہاں رسموں کوترجیح حاصل ہے؛چنانچہ دوسرے مذاہب کے متبعین سے ہوتے ہوئے
ہمارے درمیان بھی ایسارویہ اور رجحان بتدریج پیداہوتااور بڑھتاجارہاہے کہ ہم بہت سے مذہبی علائم اور تشخصات کورسموں،رواجوں میں تبدیل کرچکے ہیں، ان کی اصل حیثیت وماہیت کومحوکرکے ایک نئی شکل،نیالُک دینے کی کوشش میں ہیں،اکیسویں صدی کے مسلمان بہت سے اسلامی شعائر و تشخصات کے ساتھ ایسا کررہے ہیں اور بدقسمتی سے رمضان المبارک کا مہینہ بھی اسی فہرست میں درج ہوتاجارہاہے،خاص طورسے مسلمانوں کی جوشہری آبادی ہے، ان میں سے بھی جو ’زیادہ‘تعلیم یافتہ اور ایڈوانسڈہے اور جونئی صدی کے نئے ترقی پذیریاترقی پسند معاشرے کے چوکھٹے میں اپنے آپ کوفٹ کرناچاہتی ہے،اس کے نزدیک نماز،روزہ جیسی چیزیں درخورِاعتنانہیں ؛چنانچہ رمضان کے مہینے میں بھی صبح صبح مسلم محلوں کے بہت سے گھروں میں بہترین ناشتے کاانتظام کیا جاتا ہے اور ان مکانوں کے دانشمندمکین حسبِ روایت بریک فاسٹ،لنچ اور ڈنرکے نظام کوجاری و ساری رکھ کر اپنے شب و روز کی سرگرمیاں نپٹاتے ہیں،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جواچھے خاصے تندرست ہیں اور ان کے دلوں میں اسلامی شعائروارکان کی کچھ نہ کچھ قدربھی ہے؛لیکن چوں کہ وہ دہلی،ممبئی وغیرہ جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں رہتے ہیں،جہاں ایسے بے حیا،بے شرم ہوٹل والے دھڑلے سے دستیاب ہوتے ہیں،جوروزہ خوروں کے لیے پردے کے پیچھے بیٹھ کرخوردونوش کامعقول یا غیر معقول انتظام کردیتے ہیں؛اس لیے وہ لوگ بھی روزہ نہیں رکھتے اورانہی ’پردہ دار‘ہوٹلوں میں روزہ خوری کرتے ہیں،حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ روزہ خوری صرف بیڑی یا سگریٹ کے ذریعے کرتے ہیں،ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان لوگوں کی بس ایک ضدہوتی ہے کہ روزہ نہیں رکھناہے،چاہے بیڑی ،سگریٹ کے دھویں میں ہی اسے کیوں نہ اڑادیاجائے۔بڑے بڑے شہروں میں رہنے کے فائدے بھی ہیں،مگربے شمار نقصانات بھی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اخلاقیات و انسانیت سے ہے،انہی میں سے ایک یہ ہے کہ شہرمیں رہنے سے انسان ایک طرح سے ڈھیٹ ہو جا تا ہے، یعنی اس کے دل سے ادب،اخلاق اور تمیزولحاظ کا وہ عنصرہواہوجاتاہے،جوگاؤں کے لوگوں کاخاصہ ہوتاہے،ہم دیکھتے ہیں کہ گاؤں میں تواب بھی اگرکوئی شخص روزہ نہیں رکھتاہے،چاہے اس کے ساتھ کوئی طبی مجبوری ہو،پھربھی وہ اوراس کے گھروالے یہ کوشش کرتے ہیں کہ محلے اور گاؤں والوں کوپتہ نہ لگے، ورنہ لوگ کیاکہیں گے!لیکن شہروں میں توہرشخص اپنے آپ میں مگن ہے،آپ راستے سے گزررہے ہیں اور وہیں ایک اوباش انسان کسی کے ساتھ بدتمیزی کررہاہے؛لیکن آپ چپ چاپ آگے نکل جائیں گے،یہاں کے بچے بڑوں کاکان کاٹتے نظرآتے ہیں،اخلاقیات کاپیمانہ الٹ دیاگیاہے اور انسانیت کی نئی تعبیر ایجادکی گئی ہے،جس کی تفہیم میں ساری دنیاجٹی ہوئی ہے،سورمضان کے دنوں میں خالص مسلم محلوں میں بھی ہوٹل کھلے ہوئے اورلوگ کھاتے ہوئے ملیں،توچنداں تعجب کی بات نہیں!
بہرکیف روزہ ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے کہ اسے انجام دینے کا جذبہ خود بخود پیدا ہوناچاہیے،معاشرہ اور ماحول کے زیرِ اثرروزہ رکھنایانہ رکھنا ہماری قوتِ ارادی و خود اعتمادی میں کمزوری کی دلیل ہے۔روزہ ہمیں جسمانی فوائد سے بھی سرشارکرتاہے اور روحانی و اخلاقی خوبیوں اورخوب صورتیوں سے بھی ہم کنار کرتاہے،روزہ انسان کوانسان بنانے کی راہ میں سمت نُماکی حیثیت رکھتاہے،روزہ ہمیں اپنے رب کا عرفان عطاکرتاہے،روزہ ہمیں فر ش پربیٹھ کرعرش والے سے قریب ترہونے کا احساس بخشتاہے؛اس لیے ہمیں بلاشرعی عذرکے روزہ خوری کی بجاے اس کااہتمام کرنے کی فکرکرنی چاہیے اوران بے شمارنعمتوں کامستحق بنناچاہیے،جواللہ نے روزہ داروں کے لیے تیارکررکھی ہیں۔